Tuesday, August 12, 2014

مقدمہ آزادی مارچ

مئی 2013 میں الیکشن منعقد ہوے. الیکشن کے بعد تمام جماعتوں نے، بشمول نواز لیگ، یہ الزام عائد کیا کہ الیکشن میں بڑے پیمانے پر دھاندلی ہی. ٹیلی ویژن چینلز، اخبارات، الیکشن ابزرو  کرنے والے دیگر ادارے، سب نے الیکشن پر سوالات اٹھائے.
تحریک انصاف نے بھی الیکشن کو دھاندلی زدہ قرار دیا. چیئرمین تحریک انصاف، عمران خان، نے اعلان کیا کے انہوں نے نتائج تسلیم کر لئے، حکومت تسلیم کر لی مگر دھاندھلی تسلیم نہیں کی. انہوں نے ' الیکشن آڈٹ' ڈیمانڈ کیا جس میں یہ پتا چلایا جا سکے کہ آخر الیکشن میں ہوا کیا. اور آئندہ دھاندلی روکنے کے لئے الیکٹورل ریفورم کی جا سکے. پارلیمنٹ میں تقریر میں انہوں نے کہا کہ چار حلقوں کا آڈٹ کرایا جائے تاکے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو سکے. وزیر داخلہ نثار علی خان نے جواباً چالیس حلقے کھولنے کا کہا. تحریک انصاف نے تجویز مان لی. مگر کچھ نا ہوا.
بات دوبارہ پارلیمنٹ میں آئ. خواجہ سعد رفیق نے نکتا اٹھایا کہ چار حلقے تحریک انصاف اور چار حلقے نون لیگ دے. اس پر بھی اتفاق ہو گیا. نون لیگ نے عمران خان کی ایک سیٹ آڈٹ کے لئے دی. تحریک انصاف نے اپنے طور پر عمران کی دوسری سیٹ جس سے وہ میانوالی میں جیتے تھے وہ بھی پیش کر دی. لیکن بات وہیں رک گئی. تحریک انصاف لگاتار ڈیمانڈ کرتی رہی اور حکومت لگاتار غیر سنجیدہ ردعمل دیتی رہی. بات کو ہنسی ٹھٹھے میں اڑاتی رہی.  مئی 2014 آ گیا. تحریک انصاف نے دھاندلی کے خلاف تحریک شروع کر دی. پھرموقع دیا دھاندلی کے الزامات کی تحقیقات کا. عمران خان نے یہاں تک کہا کے اگر تحقیقات میں دھاندلی کے شواہد نا ملے تو وہ نواز شریف کے گھر جا کر معافی مانگیں گے. مگر ڈھاک کے تین پات. نواز لیگ کے گلو بٹ غیر سنجیدہ بیانات دیتے رہے. کام کچھ نا کیا.
دانشمندانہ جواب اور طریقہ کار یہ ہوتا کہ حکومت دھاندلی کے الزامات کو سنجیدگی سے لیتی. پارلیمنٹ میں موجود تمام جماعتوں کو باور کراتی کہ وہ واقعی ان الزامات کی تہ تک پہنچنا چاہتی ہے. سب کو اعتماد میں لے کر تحقیقات کا عمل شروع ہوتا. اگر دھاندلی ثابت ہو جاتی تو ملوث افراد کے خلاف کاروائی ہوتی اور بہتر الیکشن کے نظام پر کام شروع ہوتا. اگر دھاندلی ثابت نا ہوتی تو الزام لگانے والوں کی سبکی ہوتی. مگر حکومت اپنا فرض ادا کرنے میں ناکام رہی. سب راستے بند کر کے بیٹھے رہے. ایسے میں ایک واحد راستہ احتجاج کا بچا. احتجاج ایک بنیادی، جمہوری حق ہے جو ریاست ہر شہری کو دیتی ہے اور تحریک انصاف 14 اگست کو اپنا یہی حق استعمال کر رہی ہے.
حکومت نے اپنے غیردانشمندانہ رویئے سے ملک کو ایک بند گلی میں لا کھڑا کیا ہے. تمام مواقع مہیا کیے جانے کے باوجود انکو ہاتھ سے جانے دیا.  ہمارے پاس سوائے احتجاج کے کوئی اور آپشن چھوڑا ہی نہیں.

No comments:

Post a Comment