Friday, September 5, 2014

اسے امّاں تو نہیں کہ سکتا...

.اسلام علیکم
.وعلیکم اسلام
کیسے مزاج ہیں؟
جی الحمدلللہ. میں نے پہچانا نہیں ؟
.جی میں بڑے مخدوم صاحب کا چھوٹا بیٹا، مخدوم زادہ ہوں
اوہ اچھا اچھا. جی آیاں نوں. کیا پسند کریں گے؟ لسی منگواؤں؟
.جی نہیں، شکریہ
کیسے آنا ہوا؟
.چوہدری صاحب دراصل میں آپ سے ووٹ مانگنے آیا ہوں. جمہوریت کے نام پر ووٹ
یہ جمہوریت کیا ہوتی ہے؟
.اکثریت کی رائے کو ماننا جمہوریت کہلاتا ہے
کیا مطلب؟ سمجھا نہیں؟
.مثال کے طور پر، آپ گڑ بناتے ہیں. اگر گاؤں کی اکثریت فیصلہ کر دے کہ آج سے شکر بنے گی، تو شکر بنے گی
اور اگر اکثریت کہے کے گڑ بنے گا؟
.تو چوھدری صاحب پھر گڑ بنے گا



انتہائی معذرت مخدوم زادہ صاحب. جمہوریت کے نام پر میں آپکو ووٹ نہیں دے سکتا
مگر کیوں؟
دیکھئے، میرے سات بچے ہیں. سارے میری بیوی کو 'اماں' کہتے ہیں. اب میں انکے پیچھے لگ کر اسے  امّاں تو نہیں کہ سکتا 

Friday, August 29, 2014

ایک گھر کی کہانی...

ایک گھر ہے...
ٹوٹا پھوٹا...
مسائل میں گھرا ہوا... 
غربت ہے..  افلاس ہے...
دیواروں میں دراڑیں ہیں..
چھت ٹپکتی ہے...
نلکے کا بور بیٹھ گیا ہے...
واٹر سپلائی کا پائپ ٹوٹ گیا ہے...
نکاسی آب بند ہے...
غرض یہ کے انتہائی زبوں حالی ہے...

ایسے میں ہمسایہ محلے کے سرکردہ لوگوں کی ملی بھگت سے گھر کے اندر گھس کر گھر پر اور گھر والوں پر قبضہ جما لے اور دروازہ اندر سے بند کر لے.

گھر کا اصل سربراہ گھنٹیاں دے، کنڈی کھٹ کھٹائے، بااثر لوگوں کے دروازے پر جائے، تھانے میں شکایت کرے... سب سے استدعا کرے کہ بھائی میرا گھر ہے... میں اس کا اصل وارث اور حقدار ہوں. غاصب کو باہر نکالو. نہیں مانتا تو کم ازکم اسکو پنچایت میں تو لاؤ.. بات کراؤ.. میرا حق مجھے دلواؤ... میرا گھر ہے.. مرے گھر والے ہیں.. خدارا کچھ تو کرو...

لیکن سب، بشمول غاصب کے، اسکو توجیح پیش کریں کہ بھائی چپ ہو جا. 
خاموش ہو جا.
گھر کی ڈیمانڈ سے دستبردار ہو جا.
گھر والوں کا مطالبہ چھوڑ.
غاصب کو موقع دے.
تیری ٹوٹیاں ٹھیک کرے گا.
تیری دیوار پلستر کر دے گا.
تیرا گٹر کھلوا دے گا..

چپ ہو جا بھائی، چپ ہو جا.. غاصب کو کام کرنے دے.. 

Tuesday, August 12, 2014

Man with a mission

I began writing this blog a couple of years ago, but don't know why, never finished it. Sharing just one paragraph that I wrote of a blog that is likely to remain unfinished:


'You only fail when you accept failure,' preached an energetic, confident and determined Imran Khan amid pin drop silence in a hall full of us, his followers, during at dinner he hosted in Islamabad's posh hotel. This one line pretty much summed up his life; an aspiring fast bowler, who was told over and over that his aspirations may just be a dream he might never be able to live. A philanthropist, looking to build a one of it's kind charitable cancer hospital for the poor of Pakistan, with a constant caution by everyone around him that he was bound to fail. A politician, with only a partial success after sixteen years of struggle, Imran Khan. The man who has single-handedly changed the way politics is done in Pakistan.
 

مقدمہ آزادی مارچ

مئی 2013 میں الیکشن منعقد ہوے. الیکشن کے بعد تمام جماعتوں نے، بشمول نواز لیگ، یہ الزام عائد کیا کہ الیکشن میں بڑے پیمانے پر دھاندلی ہی. ٹیلی ویژن چینلز، اخبارات، الیکشن ابزرو  کرنے والے دیگر ادارے، سب نے الیکشن پر سوالات اٹھائے.
تحریک انصاف نے بھی الیکشن کو دھاندلی زدہ قرار دیا. چیئرمین تحریک انصاف، عمران خان، نے اعلان کیا کے انہوں نے نتائج تسلیم کر لئے، حکومت تسلیم کر لی مگر دھاندھلی تسلیم نہیں کی. انہوں نے ' الیکشن آڈٹ' ڈیمانڈ کیا جس میں یہ پتا چلایا جا سکے کہ آخر الیکشن میں ہوا کیا. اور آئندہ دھاندلی روکنے کے لئے الیکٹورل ریفورم کی جا سکے. پارلیمنٹ میں تقریر میں انہوں نے کہا کہ چار حلقوں کا آڈٹ کرایا جائے تاکے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو سکے. وزیر داخلہ نثار علی خان نے جواباً چالیس حلقے کھولنے کا کہا. تحریک انصاف نے تجویز مان لی. مگر کچھ نا ہوا.
بات دوبارہ پارلیمنٹ میں آئ. خواجہ سعد رفیق نے نکتا اٹھایا کہ چار حلقے تحریک انصاف اور چار حلقے نون لیگ دے. اس پر بھی اتفاق ہو گیا. نون لیگ نے عمران خان کی ایک سیٹ آڈٹ کے لئے دی. تحریک انصاف نے اپنے طور پر عمران کی دوسری سیٹ جس سے وہ میانوالی میں جیتے تھے وہ بھی پیش کر دی. لیکن بات وہیں رک گئی. تحریک انصاف لگاتار ڈیمانڈ کرتی رہی اور حکومت لگاتار غیر سنجیدہ ردعمل دیتی رہی. بات کو ہنسی ٹھٹھے میں اڑاتی رہی.  مئی 2014 آ گیا. تحریک انصاف نے دھاندلی کے خلاف تحریک شروع کر دی. پھرموقع دیا دھاندلی کے الزامات کی تحقیقات کا. عمران خان نے یہاں تک کہا کے اگر تحقیقات میں دھاندلی کے شواہد نا ملے تو وہ نواز شریف کے گھر جا کر معافی مانگیں گے. مگر ڈھاک کے تین پات. نواز لیگ کے گلو بٹ غیر سنجیدہ بیانات دیتے رہے. کام کچھ نا کیا.
دانشمندانہ جواب اور طریقہ کار یہ ہوتا کہ حکومت دھاندلی کے الزامات کو سنجیدگی سے لیتی. پارلیمنٹ میں موجود تمام جماعتوں کو باور کراتی کہ وہ واقعی ان الزامات کی تہ تک پہنچنا چاہتی ہے. سب کو اعتماد میں لے کر تحقیقات کا عمل شروع ہوتا. اگر دھاندلی ثابت ہو جاتی تو ملوث افراد کے خلاف کاروائی ہوتی اور بہتر الیکشن کے نظام پر کام شروع ہوتا. اگر دھاندلی ثابت نا ہوتی تو الزام لگانے والوں کی سبکی ہوتی. مگر حکومت اپنا فرض ادا کرنے میں ناکام رہی. سب راستے بند کر کے بیٹھے رہے. ایسے میں ایک واحد راستہ احتجاج کا بچا. احتجاج ایک بنیادی، جمہوری حق ہے جو ریاست ہر شہری کو دیتی ہے اور تحریک انصاف 14 اگست کو اپنا یہی حق استعمال کر رہی ہے.
حکومت نے اپنے غیردانشمندانہ رویئے سے ملک کو ایک بند گلی میں لا کھڑا کیا ہے. تمام مواقع مہیا کیے جانے کے باوجود انکو ہاتھ سے جانے دیا.  ہمارے پاس سوائے احتجاج کے کوئی اور آپشن چھوڑا ہی نہیں.